ارادوں کا ٹوٹنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات گئے جب تمام کاموں سے فارغ ہوکر ہم الارم لگاتے ہیں، صبح جلدی اٹھنے کے لیے تو یہ ہمارا اولیں ارادہ ہوتا ہے، صرف ایک نہیں سیکڑوں ارادہ کا پیش خیمہ جن ارادوں کو ذہن میں محفوظ کرکے نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ اٹھتے ہی وہ ارادے ہماری راہ تکتے ہیں، ایک کے بعد دیگرے یاددہانی کراتے ہیں، متوجہ کرتے ہیں اپنے آپ سے کئے ہوئے وعدوں کی طرف اور ہم کمربستہ اس کی جانب لپکتے ہیں، کوئی کام وقت پر ہو جائے تو دوسرا اس کے بعد آموجود ہوتا ہے، یہ بات اور ہے کہ ہم ٹال دیتے ہیں، بھول جاتے ہیں، مگر وہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے اور ضروری ہو تو آج نہیں تو کل کرنا ہی پڑتا ہے، ہم فارغ ایک طرح سے ہوتے ہی نہیں ہے، جو فراغت ہمیں ملتی ہے ان کاموں سے الگ ہونے کے بعد ملتی ہے یا مؤخر کرنے کے بعد ، سیکڑوں کام وہ ہے جو ہم سرے سے کرتے ہی نہیں ہے یا کرنا چاہتے ہوئے نہیں کر پاتے اس کے بعد ان کاموں کی باری آتی ہے، جن کا پختہ ارادہ ہوتا ہے اور تمام تر کاوش مکمل ہوتی ہے پھر بھی کسی چھوٹی سی غلطی یا نامناسب حالات یا موقع نہ ملنے کے باعث وہ کام ادھورے رہ جاتے ہیں، جس کے پیچھے ڈھیروں افسوس و ہراس کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور مشکل مراحل کا وقت شروع ہو جاتا ہے کیونکہ ایک بڑا وقت اس پر ہم صرف کر چکے ہوتے ہیں، اپنی قابلیت کو لگا کر خود کو تھکا کر نیند اور آرام کو ترک کرکے ذہن کو سکون سے دور رکھ کر مسلسل محنت کے بعد وہ کام یا ارادہ ٹوٹتا ہے، ہم اپنے آپ کو کسی ایسی جگہ محسوس کرتے ہیں گویا جہاں سے سفر کیا ہو اور اب وہیں پہنچ گئے ہو اب نہ وقت رہا نہ ہی سامان سفر نہ وہ حوصلوں کی بلندی رہی نہ ارادہ کی پختگی اور نہ ہی طبیعت میں اس طرح کا نشات مگر ہمیں کام کو بہر کیف کرنا ہی پڑتا ہے اور ہم ٹوٹے ارادوں اور شکستہ ہمت کے باوجود پھر اڑان بھرتے ہیں۔۔۔۔۔
کون ہے جو اس مراحل سے نہ گزر چکا ہو اور دنیاوی زندگی میں کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ ان حالات کا مقابلہ کبھی نہیں کریگا ہمیں اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا ہی ہوتا ہے، کیونکہ ہر انسان تو ایسا نہیں جس کے پیچھے مینجر لگے ہوئے ہو جو ہر کام کو ہینڈل کر رہے ہوکہ اس وقت یہ کام اور اس وقت فلاں کام، ایسے مرحلہ کے لیے ہی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ مقالہ بڑا تسلی بخش معمول ہوتا ہے۔۔۔۔
جب حضرت سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے رب کریم کو کیسے پہچانا تو فرماتے ہیں۔۔
عرفت ربي بفسخ العزائم
میں نے اللہ کو ارادوں کے ٹوٹنے میں پہچانا۔۔
انسان کے انسان اور خدا کے خدا ہونے میں فرق یہی تو ہے کہ انسان سیکڑوں ارادہ کے باوجود ہر ارادوں میں خال خال ہی کامیاب ہوتا ہے اور اللہ کی ذات تو کن کہتی ہے اور وہ ہوجاتا ہے، کسی کی ذرہ برابر محتاج نہیں۔۔۔۔
ابرار احمد سورتی
ارادوں کا ٹوٹنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات گئے جب تمام کاموں سے فارغ ہوکر ہم الارم لگاتے ہیں، صبح جلدی اٹھنے کے لیے تو یہ ہمارا اولیں ارادہ ہوتا ہے، صرف ایک نہیں سیکڑوں ارادہ کا پیش خیمہ جن ارادوں کو ذہن میں محفوظ کرکے نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ اٹھتے ہی وہ ارادے ہماری راہ تکتے ہیں، ایک کے بعد دیگرے یاددہانی کراتے ہیں، متوجہ کرتے ہیں اپنے آپ سے کئے ہوئے وعدوں کی طرف اور ہم کمربستہ اس کی جانب لپکتے ہیں، کوئی کام وقت پر ہو جائے تو دوسرا اس کے بعد آموجود ہوتا ہے، یہ بات اور ہے کہ ہم ٹال دیتے ہیں، بھول جاتے ہیں، مگر وہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے اور ضروری ہو تو آج نہیں تو کل کرنا ہی پڑتا ہے، ہم فارغ ایک طرح سے ہوتے ہی نہیں ہے، جو فراغت ہمیں ملتی ہے ان کاموں سے الگ ہونے کے بعد ملتی ہے یا مؤخر کرنے کے بعد ، سیکڑوں کام وہ ہے جو ہم سرے سے کرتے ہی نہیں ہے یا کرنا چاہتے ہوئے نہیں کر پاتے اس کے بعد ان کاموں کی باری آتی ہے، جن کا پختہ ارادہ ہوتا ہے اور تمام تر کاوش مکمل ہوتی ہے پھر بھی کسی چھوٹی سی غلطی یا نامناسب حالات یا موقع نہ ملنے کے باعث وہ کام ادھورے رہ جاتے ہیں، جس کے پیچھے ڈھیروں افسوس و ہراس کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور مشکل مراحل کا وقت شروع ہو جاتا ہے کیونکہ ایک بڑا وقت اس پر ہم صرف کر چکے ہوتے ہیں، اپنی قابلیت کو لگا کر خود کو تھکا کر نیند اور آرام کو ترک کرکے ذہن کو سکون سے دور رکھ کر مسلسل محنت کے بعد وہ کام یا ارادہ ٹوٹتا ہے، ہم اپنے آپ کو کسی ایسی جگہ محسوس کرتے ہیں گویا جہاں سے سفر کیا ہو اور اب وہیں پہنچ گئے ہو اب نہ وقت رہا نہ ہی سامان سفر نہ وہ حوصلوں کی بلندی رہی نہ ارادہ کی پختگی اور نہ ہی طبیعت میں اس طرح کا نشات مگر ہمیں کام کو بہر کیف کرنا ہی پڑتا ہے اور ہم ٹوٹے ارادوں اور شکستہ ہمت کے باوجود پھر اڑان بھرتے ہیں۔۔۔۔۔
کون ہے جو اس مراحل سے نہ گزر چکا ہو اور دنیاوی زندگی میں کون دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ ان حالات کا مقابلہ کبھی نہیں کریگا ہمیں اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا ہی ہوتا ہے، کیونکہ ہر انسان تو ایسا نہیں جس کے پیچھے مینجر لگے ہوئے ہو جو ہر کام کو ہینڈل کر رہے ہوکہ اس وقت یہ کام اور اس وقت فلاں کام، ایسے مرحلہ کے لیے ہی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ مقالہ بڑا تسلی بخش معمول ہوتا ہے۔۔۔۔
جب حضرت سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے رب کریم کو کیسے پہچانا تو فرماتے ہیں۔۔
عرفت ربي بفسخ العزائم
میں نے اللہ کو ارادوں کے ٹوٹنے میں پہچانا۔۔
انسان کے انسان اور خدا کے خدا ہونے میں فرق یہی تو ہے کہ انسان سیکڑوں ارادہ کے باوجود ہر ارادوں میں خال خال ہی کامیاب ہوتا ہے اور اللہ کی ذات تو کن کہتی ہے اور وہ ہوجاتا ہے، کسی کی ذرہ برابر محتاج نہیں۔۔۔۔
ابرار احمد سورتی