Translation is not possible.
کیا آپ خود کو طویل المدتی کھیل کے لیے تیار کر رہے ہیں؟
کئی لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں:
“یمین بھائی! آپ مشرق وسطٰی میں ہونے والے واقعات کے بارے میں اور لوگوں کی طرح جذباتی پوسٹس کیوں نہیں لکھتے، ویڈیوز کیوں نہیں شئر کرتے؟”
میرا ان باکس سینکڑوں مخلص بہن بھائیوں کے پیغامات سے بھرا ہوا ہے، جو جاننا چاہتے ہیں کہ ان حالات میں وہ کیا کریں۔
بات اصل میں یہ ہے کہ:
میں جو کچھ کرسکتا ہوں، الحمدللہ، برسوں سے عملی طور پر کر رہا ہوں۔
میرا ہر کام سوشل میڈیا پر نظر نہیں آتا اور نہ ہی میں دکھانا چاہتا ہوں، کیونکہ اصل اثر و رسوخ صرف لائکس اور فارورڈز سے نہیں آتا۔
تو میں کیا کر رہا ہوں؟
پچھلے 22 سالوں میں، میں 85 سے زائد قوموں کے افراد کے ساتھ کام کر چکا ہوں۔
پچھلے خصوصا" 12 سالوں سے مختلف لیڈرز، اسکالرز، فیصلہ سازوں سے ملاقاتیں، مشورے، رہنمائی، اور ایسے نظاموں کی تیاری، جو آنے والی نسلوں کے لیے ہو۔
بااثر لوگوں کو براہِ راست خطوط، سوالات، مکالمے اور جہاں ضرورت پڑی وہاں ہاتھ بھی جوڑ لیے۔
اور سب سے اہم بات یہ کہ میں اپنے وسائل اور توانائی۔۔۔
شور نہیں، حکمت عملی میں لگاتا ہوں۔
نعرے بازی میں نہیں، صلاحیت سازی میں لگاتا ہوں ۔
ردِعمل کی نفسیات میں نہیں، مستقبل کی تیاری میں لگاتا ہوں۔
اور ایک بات میں نے تاریخ کے ایک ادنٰی طالب علم کے طور پہ سیکھ لی ہے:
درندے سے فریاد نہیں کی جاتی کہ وہ آپ کو چیر پھاڑ نہ کھائے۔ اسے جواب دینے کے لیے اتنا طاقتور ہونا ہوتا ہے کہ وہ قریب آنے کی ہمت بھی نہ کرے، 100 بار سوچے!
صرف جذبات درندوں کو پئچھے ہٹانے کے لیے کافی نہیں ہیں۔
میں بچپن سے آج تک دیکھ رہا ہوں کہ۔۔۔
ہم مسلمان مظاہرے کر رہے ہیں۔
نعرے لگا رہے ہیں۔
ان ہی لوگوں سے رحم کی اپیل کر رہے ہیں جنہوں نے ہمیں تباہ کیا!
یہ ایسا ہی ہے جیسے آگ سے یہ کہنا کہ مجھ پر مہربانی کرو، مجھے نہ جلاؤ!"
آگ کا کام جلانا ہے، وہ جلائے گی۔ درندے کا کام درندگی ہے، وہ اپنی جبلت نہیں بدلے گا۔
میں جانتا ہوں کہ غم حقیقی ہے۔
میں جانتا ہوں کہ یہ دکھ حقیقی ہے۔
لیکن اگر یہی غم اور دکھ ہی سب کچھ ہے تو یہ کافی نہیں ہے، اور نہ ہی اس سے کبھی کامیابی ملے گی۔
جذبات اگر حکمت کے تابع نہ ہوں تو وہ بس چنگاری ہوتے ہیں جو تھوڑی دیر میں بجھ جاتی ہے۔
ہمیں چنگاری نہیں، جلتی ہوئی روشنی بننا ہے — جو سمت دے، راستہ دکھائے، اگرچہ سفر بہت لمبا ہے۔
تاریخ کے جھروکوں سے کچھ دیکھیے...
یہ 1600ء کی بات ہے۔
ایک تجارتی کمپنی نے برطانیہ سے جہاز روانہ کیا — ایک وژن کے ساتھ۔
کمپنی کا نام تھا: برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی۔
بظاہر یہ ایک تجارتی کمپنی تھی— روئی، کپڑا، ریشم، اجناس خورد و نوش، مصالحہ جات وغیرہ کی تجارت۔
لیکن اس تجارت کے پیچھے ایک نسلوں پر محیط، دنیا کے نقشے کو بدلنے والا وژن تھا۔
وژن صرف یہ نہیں تھا کہ صرف منافع کمانا ہے، بلکہ وژن تھا اقتدار کا، اثر و رسوخ قائم کرنے کا، اور ایک عالمی سلطنت کے تاج میں ہندوستان کے ہیرے کو شامل کرنے کا۔
1612ء میں، بادشاہ جیمز اول نے سر تھامس رو کو مغل شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں ملاقات کے لیے بھیجا۔
تھامس رو جہانگیر کے دربار میں جھکا نہیں، نہ ہی اس نے کوئی دھمکی دی۔ وہ دور رس حکمت عملی، ڈپلومیسی اور ایک بہت واضح وژن کے ساتھ وہاں آیا تھا۔
اس کی اور اس کے مصاحبین کی سوچ بالکل واضح تھی۔۔۔
"ہم یہاں صرف تجارت کے لیے نہیں آئے ہیں، ہم یہاں جڑیں پکڑنے آئے ہیں۔"
کچھ ہی دہائیوں میں، کلکتہ، بمبئی، مدراس کی تجارت پر ان کی دھاک بیٹھنا شروع ہوچکی تھی۔
کمپنی کے جھنڈے تلے آنے والے تاجر صرف تاجر نہیں تھے،
وہ درباروں میں رسائی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے،
گفتگو میں انہیں مہارت حاصل تھی،
100 سال کے عرصے میں وہ ہندوستانی تاجروں کی بات چیت میں شامل ہوچکے تھے اور اب مقامی تاجر ان کی ذہانت سے متاثر نظر آتے تھے۔
سب سے خطرناک کام انہوں نے یہ کیا کہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی:
“وہ (انگریز) ہم (ہندوستانیوں) سے بہتر ہیں۔”
جبکہ ان کے افسران ملیریا اور ہیضے سے بیمار پڑ رہے تھے، مر بھی رہے تھے، مگر وہ واپس نہیں جا رہے تھے۔
کیوں؟
کیونکہ انہیں سکھایا گیا تھا:
"تم افراد نہیں ہو، تم ایک عظیم وژن کے وارث ہو۔ اگر تم ہندوستان پر اپنی حکومت نہیں دیکھ پاؤ گے، تو کوئی بات نہیں، تمہاری نسلیں ضرور دیکھیں گی۔"
اور ایسا ہی ہوا نا؟
ڈھائی سو سال بعد، 1857ء میں آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر تخت دلی سے اتار دیئے گئے، ہندوستان کا راج اب مکمل طور پر کمپنی کے ہاتھوں میں آ گیا تھا۔
1600ء سے 1857ء۔۔۔۔ انگریزوں نے کتنی نسلیں اس وژن کے لیے کھپائی ہوں گی؟
کبھی سوچا ہے؟
ذرا سوچیے تو!
اب آئیے ہماری طرف۔
پچھلے 100 سالوں میں کتنے مسلمان اپنے ممالک سے یورپ اور امریکہ گئے ہوں گے؟
ڈاکٹرز، انجینئرز، بزنس مین، فری لانسرز… پوری پوری فیملیز۔۔۔
سوال مگر کچھ اور ہے۔
ہم اپنے ملکوں میں ہوں یا یورپ اور امریکہ میں ہوں،
ہمارا وژن کیا تھا اور کیا ہے؟
بس ایک اچھی نوکری مل جائے، اچھا لائف اسٹائل، بچوں کی اسکولنگ ہوجائے۔۔۔
اور وہ بھی محض اس لیے کہ وہ بھی بالآخر نوکری کر حاصل کر لیں۔
دل پہ ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ کیا ایسا ہی نہیں ہے؟؟؟
کوئی اپنی زندگیوں سے بڑا مقصد ہے ہمارے پاس؟
کوئی اثر و نفوذ کریئیٹ کرنے کی حکمت عملی؟
کوئی ادارے، کوئی لیڈرشپ، کوئی پاورفل میڈیا، کوئی اپنی ٹیکنالوجی، کوئی گلوبل وژن اورئینٹڈ بزنسز، کوئی پالیسی میکنگ؟
ایسا کیوں نہیں ہے؟
کیونکہ ہم نے وژن کی جگہ جذبات رکھ دیے، اور حکمت کی جگہ ردِعمل۔
تاریخ چیخ چیخ کر بتاتی ہے:
وہی قومیں اپنی دھاک بٹھاتی ہیں اور ان ہی کو مثال بنایا جاتا ہے جو اپنے وقت سے آگے کا سوچتی ہیں۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی پہلی نسل کے لوگوں نے سوچا:
"ہم جانتے ہیں کہ ہم اقتدار نہیں دیکھ پائیں گے، لیکن ہم بنیاد ڈال دیں گے۔"
اور انہوں نے بنیاد ڈالی۔ اور اپنی اگلی جنریشن کو وژن کامیابی سے منتقل کرگئے۔
Send as a message
Share on my page
Share in the group